رات کو سونے سے پہلے (بلراج کومل)

کاغذ کی ناؤ

رات کو سونے سے پہلے

مجھ سے ننھا کہہ رہا تھا ! چاند لاکھوں میل کیونکر دور ہے

کیوں چمکتے ہیں ستارے؟ ۔۔۔ دو غبارے ۔۔۔ کالی بلی کیا ہوئی؟

میرے ہاتھی کو پلاؤ گرم پانی۔۔۔ وہ کہانی ۔۔۔ مجھ کو نیند آنے لگی

نصف شب کو آتے جاتے بادلوں کے درمیاں

کچھ حروفِ ناتواں

بوندیوں کے روپ میں کاغذ کے اک پرزے پہ  میرے سامنے

دیر تک گرتے رہے

نظم کے نقشِ گریزاں نے ستم لاکھوں سہے

ان گنت برسوں پہ پھیلی چشم و دل کی داستاں

رات کے پچھلے پہر کی گود میں

تیز تر ہوتی ہوئی بارش کی لوری سن کے شاید سو گئی

صبح دم

کھل اٹھے چاروں طرف بچوں کے

رنگیں قہقہوں اور تالیوں کے شوخ پھول

رات بھر کی تیز بارش کی بنائی جھیل میں

ڈگمگاتی ، ڈولتی

چل رہی تھیں چھوٹی چھوٹی کشتیاں

میں نے دیکھا ان میں ننھے کی بھی تھی پیاری سی ناؤ

نظم کا نقشِ گریزاں، جانا پہچانا سا کاغذ، جانے پہچانے حروف

ننھا بولا، جو آج تالی نہ پیٹے بے وقوف!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *