یوں تو کس پھول سے رنگت نہ گئی بو نہ گئی (اختر شیرانی)

یوں تو کس پھول سے رنگت نہ گئی بو نہ گئی

اے محبت! مرے پہلو سے مگر تو نہ گئی

مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر

آج تک تیرے خطوں سے تری خوشبو نہ گئی

فصلِ گل ختم ہوئی، رنگِ سمن خواب ہوا

میری آنکھوں سے مگر میری سمن رو نہ گئی

کب بہاروں پہ ترے رنگ کا سایہ نہ پڑا

کب ترے گیسوؤں کو بادِ سحر چھو نہ گئی

تیرے گیسوئے معنبر کو کبھی چھیڑا تھا

میرے ہاتھوں سے ابھی تک تری خوشبو نہ گئی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *