نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
شبِ ہجر تک کو یہ تشویش ہے
مسافر نے جانے کہاں رات کی
مقدر مری چشمِ پر آب کے
برستی ہوئی رات برسات کی
اجالوں کی پریاں نہانے لگیں
ندی گنگنائی خیالات کی
میں چپ تھا تو چلتی ہوا رک گئی
زباں سب سمجھتے ہیں جذبات کی
کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں
کہاں دن گزارا کہاں رات کی