آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا (محشر بدایونی)

آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا

اور وہ غم بھی مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائئے گا

سوچتا ہوں اشکِ حسرت ہی کروں نظرِ بہار

پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

آج اگر گھر میں یہی رنگِ شبِ عشرت رہا

لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا

تاحدِ منزل توازن چاہیے رفتار میں

جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا

گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ

ہم گئے تو آکے کوئی دوسرا رہ جائے گا

روشنی محشر رہے گی روشنی اپنی جگہ

میں گزر جاؤں گا میرا نقشِ پا رہ جائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *