بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تِری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج تِرا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اُس کی آنکھوں نے خدا جانے کِیا کیا جادو
کہ طبیعت مِری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشمِ قاتل مِری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تُو جو بگڑتا ہے ظفر سے ہر بار
خُو تِری حورِ شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی