کوئی عاشق کسی محبوبہ سے (فیض احمد فیض)

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے

 

یاد کی راہ گزر جس پہ اسی صورت سے

مدتیں بیت گئیں ہیں تمہیں چلتے چلتے

ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو

موڑ پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا

جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو

سانس تھامے ہے نگاہیں کہ نہ جانے کس دم

تم پلٹ آؤ، گزر جاؤ، یا مڑ کر دیکھو

 

گر چہ واقف ہیں نگاہیں کہ یہ سب دھوکا ہے

گر کہیں تم سے ہم اغوش ہوئی پھر سے نظر

پھوٹ نکلے گی وہاں اور کوئی راہ گزر

پھر اسی طرح جہاں ہو گا  مقابل پیہم

سایئہ زلف کا اور جنبشِ بازو کا سفر

 

دوسری بات بھی جھوٹی ہے کہ دل جانتا ہے

یاں کوئی موڑ کوئی دشت کوئی گھات نہیں

جس کے پردے میں مرا ماہِ رواں ڈوب سکے

تم سے چلتی رہے یہ راہ، یونہی اچھا ہے

تم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو کوئی بات نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *