صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ گلزار ہے کون
شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لئے مشعلِ رخسار، ہے کون
رات مہکی ہوئی آئی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرح دار ہے کون
پھر درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانئے پھر دلِ وحشی کا طلب گار ہے کون