یہ کیا عجیب راز ہے ( مجید امجد)

  یہ کیا عجیب راز ہے

 

یہ کیا عجیب راز ہے ، سمجھ سکوں تو بات ہے

نہ اب وہ اُن کی بے رُخی ، نہ اب وہ اِلتفات ہے

 

مِری تباہیوں کا بھی فسانہ کیا فسانہ ہے

نہ بجلیوں کا تذکرہ نہ آشیاں کی بات ہے

 

یہ کیا سکُوں ہے ؟ اِس سکُوں میں کتنے اضطراب ہیں

 یہ کس کا میرے سینے پر خنک خنک سا ہات ہے

 

نگاہ میں بسا بسا ، نگاہ سے بچا بچا

رُکا رُکا کچھا کچھا ، یہ کون میرے سات ہے

 

چراغ بجھ  چکے ، پتنگے جل چکے ، سحر ہوئی

مگر ابھی مِری جدائیوں کی رات ، رات ہے

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *