یہ کیا عجیب راز ہے
یہ کیا عجیب راز ہے ، سمجھ سکوں تو بات ہے
نہ اب وہ اُن کی بے رُخی ، نہ اب وہ اِلتفات ہے
مِری تباہیوں کا بھی فسانہ کیا فسانہ ہے
نہ بجلیوں کا تذکرہ نہ آشیاں کی بات ہے
یہ کیا سکُوں ہے ؟ اِس سکُوں میں کتنے اضطراب ہیں
یہ کس کا میرے سینے پر خنک خنک سا ہات ہے
نگاہ میں بسا بسا ، نگاہ سے بچا بچا
رُکا رُکا کچھا کچھا ، یہ کون میرے سات ہے
چراغ بجھ چکے ، پتنگے جل چکے ، سحر ہوئی
مگر ابھی مِری جدائیوں کی رات ، رات ہے