جہاں جہاں تری نظروں کی اوس ٹپکی ہے
وہاں وہاں سے ابھی تک غبار اٹھتا ہے
جہاں جہاں ترے جلووں کے پھول بکھرے تھے
وہاں وہاں دلِ وحشی پکار اٹھتا ہے
نہ منہ چھپا کے جئے ہم ، نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے