کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے
لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے
آرزو اس بلند و بالا کی
کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے
دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
ہے تصنع کہ لعل ہیں وہ لب
یعنی ایک بات سی بنائی ہے
دل سے نزدیک اور اتنا دور
کسے اس کو کچھ آشنائی ہے
جس مرض میں کہ جان جاتی ہے
دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے