میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
وہ مِرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا
دلِ ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں
کام کس کس کے مِرا خرمنِ آباد آیا
دی شبِ وصل مؤذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا
لیجے سنیے اب افسانئہ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغ نہیں
ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا