خوش ہوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا
مجھ کو سپردِ گردشِ ایام کر دیا
ساقی سیاہ خانئہ ہستی میں دیکھنا
روشن چراغ کس نے سرِ شام کر دیا
پہلے مِرے خلوص کو دیتے رہے فریب
آخر مِرے خلوص کو بدنام کر دیا
کتنی دعائیں دوں تِری زلفِ دراز کو
کتنا وسیع سلسئہ دام کر دیا
وہ چشمِ مست کتنی خبردار تھی عدم
خود ہوش میں رہی مجھے بدنام کر دیا