مِرے دل مرے مسافر (فیض احمد فیض)

دلِ من مسافرِ من

 

مِرے دل مرے مسافر

ہوا پھر سے حکم صادر

کہ وطن بدر ہوں ہم تم

دیں گلی گلی صدائیں

کریں رخ نگر نگر کا

کہ سراغ کوئی پائیں

کسی یارِ نامہ بر کا

 ہراک  اجنبی سے پوچھیں

جو پتہ تھا اپنے گھر کا

سرِ کوئے ناشنایاں

ہمیں دن سے رات کرنا

کبھی اِس سے بات کرنا

کبھی اُس سے بات کرنا

تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے

شبِ غم بری بلا ہے

ہمیں یہ بھی تھا غنیمت

جو کوئی شمار ہوتا

ہمیں کیا برا تھا مرنا

 جو ایک بار ہوتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *