بیٹھا ہے میرے سامنے وہ (فہمیدہ ریاض)

بیٹھا ہے میرے سامنے وہ

 

بیٹھا ہے میرے سامنے وہ

 جانے کِس سوچ میں پڑا ہے

اچھی آنکھیں ملی ہیں اُس کو

وحشت کرنا بھی آگیا ہے

بچھ جاؤں میں اُس کے راستے میں

پھر بھی کیا اس سے فائدہ ہے

ہم دونوں ہی یہ تو جانتے ہیں

وہ میرے لئے نہیں بنا ہے

میرے لیے اس کا ہاتھ کافی

اُس کے لیے سارا فلسفہ ہے

میری نظروں سے ہے پریشاں

خود اپنی کشش سے ہی خفا ہے

سب بات سمجھ رہا ہے لیکن

گُم سُم سا مجھ کو دیکھتا ہے

جیسے میلے میں کوئی  بچہ

اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے

اُس کے سینے میں چھپ کے روؤں

میرا دل تو یہ چاہتا ہے

کیسا خوش رنگ پھول ہے وہ

جو اُس کے لبوں پہ کھِل رہا ہے

یارب وہ مجھے کبھی نہ بھولے

میری تجھ سے یہی دعا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *