کھوئے ہوئے سے رہنا دن کو، روتے پھرنا راتوں کو (اثر لکھنوی)

 کھوئے ہوئے سے رہنا دن کو، روتے پھرنا راتوں کو

جو ہیں عاقل وہ کیا سمجھیں، عشق و جنوں کی باتوں کو

 

صبح کو جلوہ بر سرِ منبر، شب کو پیرِ میخانہ

اب کہئے تو بھلا کیا کہئے ایسی مقدس ذاتوں کو

 

وہ جو نہ آئے بادل چھائے، گرجے برسے، کھل بھی گئے

اس کے سوا ہم ہجر کے مارے کیا جانیں برساتوں کو

 

کیا کیا ہم پر لطف و کرم ہے، کیسی کسی مہرو وفا

تلخ اگر سن نہیں سکتے تو کیوں چھیڑو ان باتوں کو

 

ہو نہ ہو سب ہے اپنی بیتی لاکھ کرو انکار اثر

نیند آنکھوں کی اڑاتے ہو کہہ کہہ کے فسانہ راتوں کو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *