اُن سے بدخُو کا کرم بھی ستمِ جاں ہو گا
میں تو میں غیر بھی دل دے کے پشیماں ہو گا
اور ایسا کوئی کیا بے سر و ساماں ہو گا
کہ مجھے زہر بھی دیجے گا تو احساں ہو گا
کیا سُناتے ہو کہ ہے ہجر میں جِینا مشکل
تم سے بے رحم پہ مرنے سے تو آساں ہو گا
حیرتِ حسن نے دیوانہ کیا گر اُس کو
دیکھنا خانئہ آئینہ بھی ویراں ہو گا
درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری
چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہو گا