کچھ اس  ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے (جگر مراد آبادی)

 کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے

 

جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر

اے عشق! ہم تو اب تِرے قابل نہیں رہے

 

اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں

ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

 

کس درد سے کسی نے کہا آج بزم میں

اچھا یہ ہے وہ ننگِ محبت یہیں رہے

 

اس عشق کی تلافیِ مافات دیکھنا

رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *