دل نے کیا ہے قصد سفر گھر سمیٹ لو
جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو
آزادگی میں شرط بھی ہے احتیاط کی
پرواز کا ہے اذن مگر پر سمیٹ لو
حملہ ہے چار سو در و دیوار شہر کا
سب جنگلوں کو شہر کے اندر سمیٹ لو
بکھرا ہوا ہوں صرصر شام فراق سے
اب آ بھی جاؤ اور مجھے آ کر سمیٹ لو
رکھتا نہیں ہے کوئی نگفتہ کا یاں حساب
جو کچھ ہے دل میں اس کو لبوں پر سمیٹ لو