بڑی اداس ہے وادی (گلزار)

بڑی اداس ہے وادی
گلا دبایا ہوا ہے کسی نےانگلی سے
یہ سانس لیتی رہے، پر یہ سانس لے نہ سکے
درخت اگتے ہیں کچھ سوچ سوچ کر جیسے
جو سر اٹھائے گا پہلے وہی قلم ہوگا
جھکا کے گردنیں آتے ہیں ابر ، نادم ہیں
کہ دھوئے جاتے نہیں خون کے نشاں ان سے!

ہری ہری ہے، مگر گھاس اب ہری بھی نہہیں
جہاں پہ گولیاں برسیں، زمیں بھری بھی نہیں
وہ مایئگریٹری پنچھی جو آیا کرتے تھے
وہ سارے زخمی ہواؤں سے ڈر کے لوٹ گئے
بڑی اداس ہے وادی۔۔۔۔ یہ وادئِ کشمیر۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *