محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریکِ گریئہ شبنم نہ ہوں گے
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظ ان سے میں جتنا بد گماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے