درخت جاں پر عذاب رت تھی (اعزاز احمد آذر)

درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے

نشاطِ منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجرِ سفر ہی دے دو
وہ رہ نوردِ رہ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے

اب ایسے قصے سے فائدہ کیا کہ کون کتنا وفا نگر تھا
جب اس کی محفل سے آ گئے اور ساری باتیں ہی بھول آئے

وفا کی نگری لٹی تو اس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا
کسی کے حصے میں زخم آئے کسی کے حصے میں پھول آئے

بنامِ فصل بہار آذرؔ وہ زرد پتے ہی معتبر تھے
جو ہنس کے رزقِ خزاں ہوئے ہیں جو سبز شاخوں پہ جھول آئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *