میں کائنات میں سیاروں میں بھٹکتا تھا (گلزار)

میں کائنات میں سیاروں میں بھٹکتا تھا
دھوئیں میں دھول میں الجھی ہوئی کرن کی طرح

میں اس زمیں پہ بھٹکتا رہا ہوں صدیوں تک

گرا ہے وقت سے کٹ کر جو لمحہ اس کی طرح

وطن ملا تو گلی کے لیے بھٹکتا رہا

گلی میں گھر کا نشاں ڈھونڈتا رہا برسوں

تمہاری روح میں اب جسم میں بھٹکتا ہوں

لبوں سے چوم لو آنکھوں سے تھام لو مجھ کو

تمہاری کوکھ سے جنموں تو پھر پناہ ملے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *