قلعہ رانی کوٹ کے کھنڈرات پر نظر پڑتے ہی انسان حیرت میں کھو جاتا ہے ۔ پہاڑوں کے درمیان واقع یہ قلعہ بالکل دیوارِ چین کی مانند ہے ۔ سارے کا سارا قلعی چونے کے پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے ۔اس پر کتنی دولت خرچ ہوئی ہو گی اس کا اندازہ کرنا بھی محال ہے ۔ کھنڈر بتا رہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی ۔
یہ قلعہ سندھ کے ریلوے سٹیشن سان سے کوٹری دادو روڈ پر 32 میل کے فاصلے پر کوہستانِ کیر تھر میں واقع ہے ۔ اس قلعے کے کئی دروازے تھے مشرقی دروازہ سان گیٹ کہلاتا تھا ۔ اس کے سامنے دریائے رانی واقع ہے جو سال کا بیشتر وقت خشک رہتا ہے اور صرف برسات میں بہتا ہے ۔
عظیم یونانی تاریخ نویس کیورٹس رفس نے اپنی کتاب میں اس قلعہ کا ذکر کیا ہے اس نے اس واقعہ کی تفصیل بھی بیان کی ہے جب سکندرِ اعظم نے اس قلعہ کا سہ روزہ محاصرہ کیا تھا ۔یاد رہے کہ مقامی بادشاہ اپنی رعایا کے ساتھ اس قلعے میں پناہ گزین ہو گیا تھا ۔سکندر عظم اس قلعے کو توڑتے ہوئے اور قتلِ عام کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا ۔
قلعے میں واقع بچی کھچی دیواروں پر قدیم لکھائی کے آثار ملتے ہیں۔ کھنڈرات کی صورتحل سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی تعمیر کے لئے میٹیریل کہیں اور سے لایا گیا تھا ۔ قلعہ کے اندر داخل ہتےہی بالکل سامنے سٹوپا نما برج ہےجو ہندووانہ طرزِ تعمیر کی غمازی کرتا ہے تھوڑا سا آگے بڑھیں تو دائیں حصے میں ایک مسجد کے آثار ملتے ہیں ۔ اس کے میناروں اور گنبد کے بعض حصے اب بھی گرے پڑے نظر آتے ہیں ۔ قلعہ کی شکل چوکور نما ہے اور 45 مربع میل کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے ۔ قلعے کے وسط میں ایک چھوتا سا قلعہ نما کمرہ تھا جو اونچی جگہ پر واقع تھا اور اس کو میری کہا جاتا تھا ۔
معلوم ہوتا ہے میری، میر سے بنا ہے ۔ میر سندھ کے حکمرانوں کا ٹائٹل تھا ۔ اس قلعہ کو 1783/1784 میں تالپور کے میروں نے از سرِ نو تعمیر کروایا تھا ۔ قلعے کے مغرب کی جانب والا گیٹ موہن گیٹ کہلاتا ہے اس کے بالکل سامنے ایک وسیع میدان ہے جہاں پر فوجوں کا اجتماع ہوتا تھا اور ان کے لیے احکامات صادر کیے جاتے ۔
امری گیٹ رانی کوٹ قلعے کی آخری حد کہلاتا ہے اس گیٹ سے داخل ہو کر اہلِ علاقہ قلعہ بند ہوجایا کرتے تھے ۔ قلعہ سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرقی جانب سندھ کا ایک پرانا گاؤں امری ہے جو اب بھی ایک چھوٹے سے گاؤں کی شکل میں آباد ہے ۔ قلعے کے اندر چھوتا قلعہ سحر گاہ واقع ہے جہاں علاقے کے حکمران پناہ لیتے تھے وہاں تک دشمن کا پہنچنا بہت دشوار ہوتا تھا ۔ قلعے کے اندر پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ایک وسیع و عریض تالاب تھا جو امتدادِ زمانہ کے باعث اب ٹوٹ پھوٹ چکا ہے تاہم بارشوں کا پانی اب بھی اچھی خاصی مقدار میں اس کے اندر جمع رہتا ہے ۔
ایک وہ وقت تھا جب قلعہ فوجیوں کے بوٹوں کی بھاری آواز سے مانوس تھا مگر اب وہاں شاذ و نادر ہی کوئی شخص جاتا ہے اور یہ بالکل ویران حالت میں پڑا ہے کبھی اس کی راتیں جاگتی تھیں اب اس کے دن بھی راتوں کی طرح اندھیروں میں بسے رہتے ہیں ۔
قدیم پہاڑیوں کے درمیان واقع قلعہ رانی کوٹ تاریخ کا ایک خاموش گواہ ہے ۔ اگر اس کی کاموشی کسی طرح ٹوت جائے تو وہ لازماً ماضی کی ان گنت داستانیں بیان کرے ۔ وہ ان بہادروں کے کارناموں کو ضرور اجاگر کرے گا جنہوں نے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جان، جانِ افریں کے سپرد کر دی تھی ۔
معلوم ہوتا ہے مختلف ادوار میں اس کی تعمیر تزئین کی جاتی رہی ہے ۔ اس قلعے کے متعلق بے شمار کہانیاں بھی موجود ہیں ۔ بعض کے مطابق کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں یہ جنوں کا مسکن رہا ہے
یہ بات شبہ سے بالاتر ہے کہ قلعہ رانی کوٹ 1784 ء میں حیدر آباد کے تالپور میر خاندان کے زیرِ نگین رہا ہے ۔ اس خاندان نے اس قلعے کی از سرِ نو تعمیر کے لیے بڑی کاوشیں کی تھیں یوں معلوم ہوتا ہے انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت کا اندازہ ہو چکا تھا تاہم قسمت نے تالپور خاندان کا ساتھ نہ دیا اور 17 فرور1843 کو انگریزوں کے ساتھ جنگ کے بعد انہیں پسپا ہونا پڑا اور ان کی طاقت بالکل ختم ہو کر رہ گئی اور قلعہ انگریزوں کے قبضے میں آگیا ۔ اس طرح تالپور خاندان کی جائے پناہ ان کے ہاتھ سے چھن گئی اور پورا خاندان تتر بتر ہو گیا ۔