مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے (مرزا غالب)

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

پھر چاہتا ہوں نامئہ دل دار کھولنا

جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں کیے ہوئے

پھر جی میں ہے در پہ کسی کے پڑے رہیں

سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے

غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیئہ طوفاں کیے ہوئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *