ڈارون سے ہزار برس قبل نظریئہ ارتقاء پیش کرنے والا مسلمان مفکر کون تھا ؟

جاحظ نے سائنس ، جغرافیہ، فلسفہ ، صرف و نحو اور علم البیان جیسے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا

نظریئہ ارتقاء انسان کی فکری تاریخ کے طاقتور ترین نظریات میں سے ایک ہے اور جتنا اس نے انسانی فکر پر اثرات ڈالے ہیں شاید ہی کسی اور نظریئے نے ڈالے ہوں ۔

عام طور پر چارلز ڈارون کو اس نظریئے کا بانی سمجھا جاتا ہے  لیکن حیاتیاتی ارتقاء کا تصور ہزاروں برس پہلے موجود تھا ۔

ڈارون کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس نظریئے کو اتنے پختہ  منطقی اور سائنسی بنیادوں پر استوار کیا کہ یہ چند عشروں کے اندر دنیا بھر میں مسلمہ مان لیا گیا ۔ اور بعد میں حاصل ہونے والے ہزاروں بین الشعبہ جاتی شواہد اسے مظبوط سے مضبوط تر بناتے چلے گئے ۔

ڈارون کے نظریہ کے بنیادی ستون دو ہیں نیچرل سلیکشن یا قدرتی انتخاب اور ڈیسنٹ ود ماڈیفیکیشن یعنی ترمیم کے ساتھ سلسئہ نسب کا چلنا ۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے  ڈارون نے اس نظریئے کو بنیاد فراہم کی ، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قدرتی انتخاب کا نظریہ ڈارون سے ایک ہزار سال پہلے مسلمان مفکر جاحظ پیش کر چکے تھے  جو ڈارون کے نظریے سے حیرت انگیز طور پر مشابہہ ہے ۔

 جاحظ کا پورا نام ابو عثمان عمرو بحرالکنانی البصری تھا اور وہ 776 عیسوی میں بصرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان بے حد غریب تھا اور ان کے دادا ساربان تھے ۔ جاحظ خود بچپن میں بصرہ کی نہروں کے کنارے مچھلیاں بیچا  کرتے تھے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بد ہیئت تھے اور لوگ ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے

عربی لفظ جاحظ کا مطلب ایسا شخص ہے  جس کے دیدے باہر کو نکلے ہوئے ہوں ۔ لیکن جاحظ نے ان رکاوٹوں کو آڑے نہیں آنے دیا اور تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے مخالفین کو علم کی روشنی سے شکست دیں گے ۔

اس مقصد کے لئے انہوں نے علم حاصل کرنے کا سلسہ جاری رکھا ۔ وہ خود لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں مختلف علمی محافل میں جا کر تقاریر اور مباحثے سنا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں معتزلہ فرقہ زور پکڑ رہا تھا اور ان کی محافل میں مذہبی مسائل، فقہ اور سائنس پر دھواں دھار بحثیں ہوا کرتی تھیں ۔جاحظ نے باقدعدگی سے ان محفلوں  میں شرکت شروع کر دی  جس سے انہیں اپنے نظریات وضع کرنے میں مدد ملی ۔

یہ عباسی سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا ۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کا دور کتب خانوں، علمی بحثوں اور دارالحکمت کا دور تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر سے علوم و فنون عربی زبان میں ترجمہ ہو رہے تھے اور مسلم دنیا نت نئےنظریات سے روشناس ہو رہی تھی ۔

مسلمانوں نے ابھی حال ہی میں چینیوں سے کاغذ بنانے کا کارآمد فن سیکھا تھا ۔جس نے علم و دانش کے میدانوں میں انقلاب بربا کر دیا تھا ۔ نوجوان جاحظ نے اس ماحول کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور مختلف و متنوع موضوعات پر ایک کے بعد  ایک تصنیف پیش کرنا شروع کر دی ۔

جلد ہی ان کی شہرت دور و نزدیک تک پہنچ گئی ۔ یہاں تک کہ خود عباسی خلیفہ مامون الرشید ان کے قدر دانوں میں شامل ہو گئے ۔ بعد میں خلیفہ المتوکل نے انہیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کر دیا ۔

جاحظ نے سائنس ، جغرافیہ، فلفسہ ، صرف و نحو اور علم البیان جیسے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا ۔ اس زمانے میں لکھی گئی فہرستوں میں ان کی کتابوں کی تعداد دو سو کے قریب بتائی گئی ہے  تاہم ان میں صرف ایک تہائی محفوظ رہ سکی ہیں ۔

جاحظ کی کتاب البخلاء (بخیلوں کی کتاب) نویں صدی کے عرب معاشرے کا زندہ مرقع ہے جس میں انہوں نے متعدد لوگوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی ہیں ۔

جانوروں کا انسائیکلوپیڈیا

یون تو جاحظ نے دو سو سے زائد کتابیں لکھیں ، جن میں سے ارتقاء کے سلسلے کتاب الحیوان سب سے دلچسپ ہے ۔ اس انسائیکلوپیڈیا میں انہوں نے ساڑھے تین سو جانوروں کا احوال بیان کیا ہے  ویسا ہی احوال جو آج آپ کو وکی پیڈیا پر مل جاتا ہے ۔

اسی کتاب میں جاحظ نے چند ایسے تصورات پیش کئے جو حیرت انگیز طور پر ڈارون کے نظریئہ ارتقاء سے مشابہ ہیں ۔ ان نظریات کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

بقاء کی جدوجہد    

جاحظ لکھتے ہیں کہ ہر جاندار ہر وقت بقاء کی جدوجہد میں     مصروف ہے ۔ جانور زندہ رہنے کے لئے خود سے چھوٹے جانوروں کو کھا جاتے ہیں مگر خود بڑے جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں ۔ یہ جدوجہد نہ صرف جانورون کی مختلف نسلوں کے درمیان پائی جاتی ہے بلکہ ایک ہی نسل کے جانور بھی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں

۔

ایک نسل کی دوسری نسل میں تبدیلی

جاحظ اس بات کے قائل تھے کہ جانوروں کی ایک نسل مختلف عوامل کی وجہ سے دوسری نسل میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔

ماحولیاتی عوامل کا اثر

جاحظ کا خیال تھا کہ خوراک ، ماحول اور پناہ گاہ ایسے عوامل ہیں جو جانوروں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہی کے زیرِ اثر جانوروں کی خصوصیات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ یہ خصوصیات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔ اور جانور بتدریج اپنے ماحول میں زیادہ بہتر طریقے سے ڈھلنے لگتا ہے ۔ اس طرح بہتر خصوصیات والے جانوربقاء کی دوڑ میں کامیاب رہتے ہیں ۔

وہ لکھتے ہیں: جانور اپنی بقاء کی مسلسل جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں اور وہ ہر وقت خوراک حاصل کرنے ، کسی کی خوراک بننے سے بچنے اور اپنے نسل آگے بڑھانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔

یہ وہی نظریہ ہے جو بعد میں بقائے اصلح کہلایا ۔

جاحظ کے ان خیالات کا اثر بعد میں آنے والے مسلمان مفکرین پر بھی ہوا ۔ چنانچہ ہمیں ان کی باز گشت فاربی ، ابن العربی ، رومی ، البیرونی ، ابنِ خلدون اور دوسرے مسلمان حکماء کے ہاں ملتی ہے ۔

ارتقاء کے بارے میں مسلمانوں کے یہ تصورات 19ویں صدی کے یورپ میں خاصے عام تھے حتیٰ کہ ڈارون کے ایک ہم عصر جان ولیم ڈریپر نے 1878ء میں نظریئہ ارتقاء کو محمڈن تھیوری آف ایوولوشن یعنی مسلمانوں کا نظریئہ ارتقاء سے موسوم کیا تھا ۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ڈارون نے جاحظ کے خیالات سے استفادہ کیا تھا ۔ بعض ویب سائٹوں پر یہ کہا گیا ہے کہ وہ عربی جانتے تھے لیکن اس کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں ۔ وہ ارتقاء کے نظریئے کے موجد نہ سہی لیکن انہوں نے اپنے مشاہدات اور گہرے غور و فکر کے بعد اس نظریے کو ٹھوس عقلی اور استدلالی بنیاد فراہم کر دی جس نے دنیا کا فکری و علمی نقشہ ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ  دیا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *