ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے (مرزا غالب

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

نکلنا خُلد سے آدم کا تو سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستئہ تیغِ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دَم نکلے

کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *