یک ذرّہ زمیں نہیں بیکار، باغ کا(مرزا غالب)

یک ذرّہ زمیں نہیں بیکار، باغ کا
یاں جادہ بھی، فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
بے مے ، کسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا
تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے
تریاکیِ قدیم ہوں دودِ چراغ کا
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں؟کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
بے خونِ دل ہے چشم میں، موجِ نگہ غبار
یہ میکدہ، خراب ہے مے کے سراغ کا
باغِ شگفتہ، تیرا بساطِ ہوائے دل
ابرِ بہار، خم کدہ کس کے دماغ کا؟
جوشِ بہار کلفتِ نظارہ ہے اسد
ہے ابر پنبہ روزنِ دیوارِ باغ کا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *