دل گیا رونقِ حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
دل دھڑکتے ہی پھر گئی وہ نظر
لب تک آئی نہ تھی کہ بات گئی
ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی
آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی
مرگِ عاشق تو کچھ نہیں لیکن
اک مسیحا نفس کی بات گئی
قیدِ ہستی سے کب نجات جگر
موت آئی اگر حیات گئی