یہ مزہ تھا ، نہ خلد میں بھی مجھے قرار ہوتا
جو وہاں بھی آنکھ کھلتی ، یہی انتظار ہوتا
میں جنونِ عشق میں یوں ہمہ تن فگار ہوتا
کہ مرے لہو سے پیدا اثرِ بہار ہوتا
میرے رشکِ بے نہایت کو نہ پوچھ میرے دل سے
تجھے تجھ سے بھی چھپاتا، اگر اختیار ہوتا
مری بے قراریاں ہی تو ہیں اس کی وجہِ تسکیں
جو مجھے قرار ہوتا، تو وہ بے قرار ہوتا
جسے چشمِ شوق میری کسی طرح نہ دیکھ پاتی
کبھی حشر تک وہ جلوہ نہ پھر آشکار ہوتا
یہ دل اور یہ بیانِ غمِ عشقِ بے محابا
اگر آپ طرح دیتے، مجھے ناگوار ہوتا
کبھی یہ ملال ، اس کا نہ دُکھے کسی طرح دل
کبھی یہ خیال، وہ بھی یونہی بے قرار ہوتا
مرا حال ہی جگر کیا ، وہ مریضِ عشق ہوں میں
کہ وہ زہر بھی جو دیتا ، مجھے سازگار ہوتا