ترے وعدے کو اے بتِ حیلہ جو (داغ دہلوی)

ترے وعدے کو اے بتِ حیلہ جو ، نہ قرار ہے نہ قیام ہے

کبھی شام ہے، کبھی صبح ہے، کبھی صبح ہے، کبھی شام ہے

مرا ذکر ان سے جو آگیا کہ جہاں میں ایک ہے باوفا

تو کہا کہ میں نہیں جانتا ، مرا دور ہی سے سلام ہے

  رہیں کوئی دم جو لڑائیاں، یوں ہی ان نگاہوں سے درمیاں

تو ہمارے دل کا بھی مہرباں ، کوئی پل میں قصہ تمام ہے

کبھی دیکھ تو سرِ رہگزر کہ تڑپتے کتنے ہیں خاک پر

نہ چل ایسی چال تو فتنہ گر کوئی یہ بھی طرزِ خرام ہے

اسے آج دیکھ کے جلوہ گر، مجھے آئی قدرتِ حق نظر

کہ یہ شمس ہے کہ یہ ہے قمر، کہ وہ خوروشِ لبِ بام ہے

وہ ستم سے ہاتھ اٹھائے کیوں، وہ کسی کا دل نہ دکھائے کیوں

کوئی اس میں مر ہی نہ جائے کیوں، اسے اپنے کام سے کام ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *