جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا (جگر مراد آبادی)

جو اب بھی نہ  تکلیف فرمائیے گا

تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا

نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا

جہاں جائیے گا، ہمیں پائیے گا

ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگِ محفل

کسے دیکھ کر آپ شرمائیے گا

مرا جب برا حال سن پائیے گا

خراماں خراماں، چلے آئیے گا

مٹا کر ہمیں آُپ پچھتائیے گا

کمی کوئی محسوس فرمائیے گا

بھلانا ہمارا مبارک، مبارک

مگر شرط یہ ہے، نہ یاد آئیے گا

جنوں کی جگر کوئی حد بھی ہے آخر

کہاں تک کسی پہ ستم فرمائیے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *