دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو (افتخار عارف)

دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے

مِرے مزاج کے سبھی موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے

میں گِر پڑوں تو مری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں

میں چپ رہوں تو مرے تیوروں کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے

وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو

وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے

مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *