دیکھ کر وہ عارض رنگیں ، ہے یُوں دل باغ باغ (داغ دہلوی)

   دیکھ کر وہ عارض رنگیں ، ہے یُوں دل باغ باغ
جیسے ہوں نظارہ گل سے عنادل باغ باغ

بن گیا خون کفِ پا سے گلستاں خار زار
میں چلا صحرا میں گویا چند منزل باغ باغ

صورت غنچہ کھلی جاتی ہیں باچھیں کس قدر
کیا خوشی ہے ، کس کو مارا ، کیوں ہے قاتل باغ باغ

گلشن فردوس میں حوریں نظر آئی ہیں کیا
ہات تلواروں کے کھا کر ہے جو بسمل باغ باغ

کیا کہوں اے ہمنشین اس بزم رنگیں کی بہار
زیب محفل تھا وہ گلرو اہل محفل باغ باغ

کون سے طائر کی ہے صیاد کو ایسی تلاش
ڈھونڈتا پھرتا ہے کیوں گلچین کے شامل باغ باغ

جب کوئی طوفاں زدہ کشتی کنارے پر لگی
کس قدر دل میں ہوئے سب اہل ساحل باغ باغ

دیکھ کر آئینہ دونوں ہو گئے برہم یہ کیا
تم ادھر خوش ہو ادھر مد مقابل باغ باغ

پھر نہ پائے گی قیامت تک یہ اپنا آشیاں
عندلیب اس طرح کیوں پھرتی ہے غافل باغ باغ

جو ہمارے حق میں کانٹے بوئیں صد افسوس ہے
تم پھرو گلگشت کرتے ان کے شامل باغ باغ

اُس کی خوشبو جب کسی گُل میں نہ پائی آپ نے
پھر جناب داغؔ کیا پھرنے سے حاصل باغ باغ

Top of Form


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *