غضب ہے جس کو وہ کافر نگاہ میں رکھے (داغ دہلوی)

غضب ہے جس کو وہ کافر نگاہ میں رکھے
خدا نگاہ سے اُس کی پناہ میں رکھے

برا ہوں میں تو مجھے رکھیے اپنے پیش نظر
برے کو چاہیے انسان نگاہ میں رکھے

پہنایا ہار گلے کا پھر اس پہ یہ طرہ
کہ پھول غیر کے تم نے کلاہ میں رکھے

جو شیخ دیکھ لے اک بار کیف مے خانہ
تو بھول کر نہ قدم خانقاہ میں رکھے

اُسی سے تو دل بیتاب ٹھیک رہتا ہے
جو تجھ کو باندھ کے زلف سیاہ میں رکھے

یہ فقر فاقہ کی خوبی نہیں ہے اے زاہد
کہ تیس روزے اگر ایک ماہ میں رکھے

سر نیاز ہو اس راہ میں قدم فرسا
جبیں سے پاؤں تری جلوہ گا ہ میں رکھے

خدا کے عشق میں اے داغ بت کی یاد رہے
ثواب ہم نے ملا کر گناہ میں رکھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *