ممکن نہیں کہ جذبئہ دل کارگر نہ ہو (جگر مراد آبادی)

ممکن نہیں کہ جذبئہ دل کارگر نہ ہو

یہ اور بات ہے تمہیں اب تک خبر نہ ہو

توہیںِ عشق، دیکھ نہ ہو اے جگر نہ ہو

ہو جائے دل کا خوں مگر آنکھ تر نہ ہو

لازم خودی کا ہوش بھی ہے بیخودی کے ساتھ

کس کی اسے خبر جسے اپنی خبر نہ ہو

وہ بد گمانیاں ہیں نہ وہ سرگرانیاں

اتنی بھی دل کی دل کو الٰہی خبر نہ ہو

احسانِ عشق اصل میں توہینِ حسن ہے

حاضر ہیں دین و دل بھی ضرورت اگر نہ ہو

یا طالبِ دعا تھا میں ایک ایک سے جگر

یا خود یہ چاہتا ہوں ، دعا میں اثر نہ ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *