کام آخر جذبئہ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا اُن کو پیار آ ہی گیا
جب نگاہیں اٹھ گئیں ، اللہ رے معراجِ شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جانِ انتظار آ ہی گیا
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۃ فردا پہ میں
درحقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا