کام آخر جذبئہ بے اختیار آ ہی گیا (جگر مراد آبادی)

کام آخر جذبئہ بے اختیار آ ہی گیا

دل کچھ اس صورت سے تڑپا اُن کو پیار آ ہی گیا

جب نگاہیں اٹھ گئیں ، اللہ رے معراجِ شوق

دیکھتا کیا ہوں وہ جانِ انتظار آ ہی گیا

اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۃ فردا پہ میں

درحقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا

ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بو

میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا

جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *