کیا کر گیا اک جلوۃ مستانہ کسی کا (جگر مراد آبادی)

کیا کر گیا اک جلوۃ مستانہ کسی کا

رُکتا نہیں زنجیر سے  دیوانہ کسی کا

کہتا ہے سرِ حشر یہ دیوانہ کسی کا

جنت سے الگ چاہیے ویرانہ کسی کا

جس کی نگہِ ناز کے ہم مارے ہوئے ہیں

وہ شوخ یگانہ ہے نہ بے گانہ کسی کا

بےساختہ آج ان کے بھی آنسو نکل آئے

دیکھا نہ گیا حالِ فقیرانہ کسی کا

ہر دل میں غمِ عشق ہے اقرار در اقرار

ہر لب پہ ہے افسانہ در افسانہ کسی کا

اس کو بھی جگر دیکھ لیا خاک میں ملتے

وہ اشک جو تھا گوہرِ یک دانہ کسی کا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *