گو دل آزار ہو، اچھّوں کا خیال اچھّا ہے (داغ دہلوی)

گو دل آزار ہو، اچھّوں کا خیال اچھّا ہے
سو بَلاؤں سےپِھر ارمانِ وِصال اچھّا ہے

یہ تِری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھّا ہے
ایک کا حال بُرا، ایک کا حال اچھّا ہے

تاک کر دِل کو وہ فرماتے ہیں! مال اچھّا ہے؟
یہ خُدا کی قسم اندازِ سوال اچھّا ہے

رُو سیاہی خطِ عارض کی مِٹی پِیری میں
کیا قیامت ہے کہ کافر کا مآل اچھّا ہے

فکر ہے داوَرِ محشر نہ توجّہ سے سُنے
غیر کے نامۂ اعمال میں حال اچھّا ہے

مول لے لیتے ہیں خود رنج شبِ وصل میں ہم
کثرتِ عیش میں تھوڑا سا ملال اچھّا ہے

ننگِ ہمّت ہے اگر دولتِ کونین مِلے
جو نہ پُورا ہو کسی سے وہ سوال اچھّا ہے

چھان لی ہم نے جہانِ گزراں کی گُزری
سارے بازار میں اِک تُو ہی تو مال اچھّا ہے

عوضِ نقل و گزک اِس کو چبا لیتا ہُوں
سوندھا سوندھا یہ مِرا جامِ سفال اچھّا ہے

وہ عیادت کو مِری آتے ہیں ، لو اور سُنو!
آج ہی خُوبیِ تقدِیر سے حال اچھّا ہے

طائرِ قبلہ نُما کو ہے حیاتِ جاوید
زندگانی کا مزا بے پر و بال اچھّا ہے

آنکھ صیّاد کی، لاکھوں میں پڑے گی اُس پر
آشیاں جِس پہ مِرا ہو وہ نہال اچھّا ہے

مرضِ عشق کی صحت کےاُٹھائے اِلزام
ہم مرے جاتے ہیں جِس روز سے حال اچھّا ہے

آگئی غیر کے مطلب میں کہاں سے خُوبی
وہ مِرے دِل میں ہے جو حرفِ سوال اچھّا ہے

اور تو کیا، تِری تصویر بھی تُجھ سے یہ کہے!
واقعی مُجھ سے تِرا حُسنِ جَمال اچھّا ہے

بد دُعا لگ گئی کیا تیرے مریضِ غم کی؟
چارہ گر مرتے ہیں، بیمار کا حال اچھّا ہے

گریۂ شب سے جو تاثیر کی اُمِید بندھی
ہنس کے تقدِیر پُکاری کہ خیال اچھّا ہے

آپ کی جِس میں ہو مرضی، وہ مُصیبت بہتر
آپ کی جس میں خُوشی ہو وہ مَلال اچھّا ہے

جو نِگاہوں میں ادا ہو، وہ جواب اعلیٰ ہے
جو اِشاروں میں ہو پُورا وہ سوال اچھّا ہے

داغؔ! تُم اور پڑھو شعر، ابھی چُپ نہ رہو
کہ یہاں، مجمعِ اربابِ کمال اچھا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *