ہوا ہے جیسے شہرہ اس عدوئے دین و ایماں کا (داغ دہلوی)

ہوا ہے جیسے شہرہ اس عدوئے دین و ایماں کا

کوئی دل چیر کے دیکھے عقیدہ ہر مسلماں کا

مزہ ہر ایک کو تازہ ملا ہے عشقِ جاناں کا

نگہ کو دید کا ، لب کو فغاں کا ، دل کو ارماں کا

نہیں معلوم اک مدت سے قاصد حال کچھ واں کا

مزاج اچھا تو ہے یادش بخیر اس آفتِ جاں کا

مری تقدیر کی برگشتگی سب میں بری ٹھہری

حسینوں کے لئے اک حسن ہے برگشتہ مژگاں کا

اگا ہے سبزہ کیسا حوضِ مے کے فرد ایسا کہ

خضر آئے نہ ہوں چشمہ سمجھ کے آبِ حیواں کا

ہوا رونے سے دل خالی کہاں ، اب تک بھی باقی ہے

خزینہ شوق و ارماں کا ، دفینہ یاس وحرماں کا

اڑایا جیسے تو نے چٹکیوں میں اس کو اے قاتل

 یہ زخمِ دل بھی ہنس کر منہ چڑاتا ہے نمکداں کا

خوشامد اس قدر کی ، ہو گیا بدنام عالم میں

زمانہ جانتا ہے مجھ کو یہ عاشق ہے درباں کا

جنوں میں خامہ فرسائی سے توڑے ہیں قلم اتنے

ہمارا گھر نہیں ہے اک نمونہ ہے نیستاں کا

یہ کیا ہے آج غیروں سے مِری تعریف ہوتی ہے

یہ کیا ہے خود بیاں ہوتا ہے اپنہ جورِ پنہاں کا

کسی کی شرم آلود نگاہوں میں یہ شوخی ہے

اِسے دیکھا، اُسے دیکھا، اِدھر تاکا، اُدھر تاکا

غش آجاتا ہے اس کو آنکھ سے جب آنکھ ملتی ہے

نگہباں اور پیدا کیجے اپنے نگہباں کا

تری آتش بیانی داغ روشن ہے زمانے پر

پگھل جاتا ہے مثلِ شمع دل ہر اک سخن داں کا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *