یہ فلک یہ ماہ و انجم ، یہ زمیں یہ زمانہ (جگر مراد آبادی)

یہ فلک یہ ماہ و انجم ، یہ زمیں یہ زمانہ

ترے حسن کی حکایت ، مرے عشق کا فسانہ

یہ ہے عشق کی کرامت ، یہ کمالِ شاعرانہ

ابھی منہ سے بات نکلی ، ابھی ہو گئی فسانہ

یہ علیل سی فضائیں،  یہ مریض سا زمانہ

 تری پاک تر جوانی ، ترا حسنِ معجزانہ

یہ مرا پیام کہنا  تو صبا مؤدبانہ

کہ گزر گیا ہے پیارے ، تجھے دیکھے اِک زمانہ

مجھے چاکِ جیب و دامن سے نہیں مناسبت کچھ

یہ جنون ہی کو مبارک رہ و رسمِ عامیانہ

تجھے حادثاتِ پیہم سے بھی کیا ملے گا ناداں؟

ترا دل اگر ہو زندہ،  تو نفس بھی تازیانہ

تری اِک نمود سے ہے ، ترے اک حجاب تک ہے

مری فکر عرش پیما، مرا ناز شاعرانہ

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کرلے، وہی فاتحِ زمانہ

یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ

دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ

کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ

وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خسروانہ

مجھے عشق کی صداقت پہ بھی شک سا ہو چلا ہے

مرے دل سے کہہ گئی کیا وہ نگاہِ ناقدانہ

تجھے اے جگر ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے

نہ بیانِ عشق و مستی نہ حدیثِ دلبرانہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *