آتے آتے مرا نام سا رہ گیا ( وسیم بریلوی)

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا

اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی

دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا

وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں

راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے

اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے

یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا

اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیم

اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *