اے ہم سخن وفا کا
تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں، تُو اپنے ہونٹ سی
کن
بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کے نُور، نہ باتوں میں تازگی
بول
اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی؟
میٹھے
تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جن کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
بازار
بند، راستے سنسان بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی
اے
روشنئ دیدہ و دل اب نظر بھی آ
دنیا ترے فراق میں اندھیر ہو گئی
القصّہ
جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں
گو ابتدائے غم میں بڑی احتیاط کی
اب
جی میں ہے کہ سر کسی پتّھر سے پھوڑیے
ممکن ہے قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری
ناصرؔ
بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بیقرار
لیکن کہاں سے لاؤں وہ بے فکر زندگی؟