جب سے بلبل نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا باہر
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں اک کمسن کے لیے
سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیر
بھیجتے تحفہ مؤذن کے لیے