دل میں اِک لہر سی اتھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانئہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دُنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور کچھ چوٹ بھی نئی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی