فراقِ یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ اِدھر رکھا کبھی تکیہ اُدھر رکھا
شکستِ دل کا باقی ہم نے غربت میں اثر رکھا
لکھا اہلِ وطن کو خط تو اِک گوشہ کتر رکھا
برابر آئینے کے بھی نہ سمجھے قدر وہ دل کی
اسے زیرِ قدم رکھا اُسے پیشِ نظر رکھا
تمھارے سنگِ در کا ایک ٹکرا بھی جو ہاتھ آیا
عزیز ایسا کیا مر کراسے چھاتی پہ دھر رکھا
جناں میں ساتھ اپنے کیوں نہ لے جاؤں گا ناصح کو
سلوک ایسا ہی میرے ساتھ ہے حضرت نے کر رکھا