نظر فریب نظاروں کو آگ لگ جائے
مری دعا ہے بہاروں کو آگ لگ جائے
خوشی کو چھین لیں، مشکل میں کام آ نہ سکیں
یہی ہیں یار تو یاروں کو آگ لگ جائے
پناہیں دامنِ طوفاں میں مل گئیں مجھ کو
مری بلا سے کناروں کو آگ لگ جائے
جلا رہے ہیں مجھے بے بسی کے دوزخ میں
خدا کرے کہ سہاروں کو آگ لگ جائے
کچھ ایسا زمزمہ چھیڑو نوا گرو جس سے
رُبابِ زیست کے تاروں کو آگ لگ جائے
سکونِ زیست کی ٹھنڈک نصیب ہو ان کو
نہیں تو درد کے ماروں کو آگ لگ جائے
چھپی ہے نازؔ وہ آتش مِرے نشیمن میں
اگر چھوئیں تو شراروں کو آگ لگ جائے