تتلیاں ناچتی ہیں (اخترالایمان)

باز آمد۔۔۔۔۔۔ایک منتاج

تتلیاں ناچتی ہیں

پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں

جیسے اک بات ہے جو

کان میں کہنی ہے خاموشی سے

اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات

دھوپ میں تیزی نہیں

ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے

دستِ شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا

اور مرے شانوں کو اس طرح ہلا جاتا ہے

جیسے میں نیند میں ہوں

عورتیں چرخہ لئے بیٹھی ہیں

کچھ کپاس اوٹتی ہیں

کچھ سلائی کے کسی کام میں مصروف ہیں یوں

جیسے یہ کام ہے دراصل ہر اک شے کی اساس

ایک سے ایک چہل کرتی ہے

کوئی کہتی ہے مری چوڑیاں کھنکیں تو کھنکاری مری ساس

کوئی کہتی ہے بھری چاندی آتی نہیں راس

رات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر

بات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر

لذتِ وصل ہے ازار، کوئی کہتی ہے

میں تو بن جاتی ہوں بیمار،  کوئی کہتی ہے

میں بھی گھس آتا ہوں اس شیش محل میں دیکھو

سب ہنسی روک کے کہتی ہیں نکالو اس کو

اک پرندہ کسی اک پیڑ کی ٹہنی پہ چہکتا ہے کہیں

ایک گاتا ہوا یوں جاتا ہے دھرتی سے فلک کی جانب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *