ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی (ناصر کاظمی)

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی

شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی

انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے

یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا

کہ اُس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا

یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا

وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہرِ رعنائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر

بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *