کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں (ناصر کاظمی)

کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر

سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں

رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پا س ہو

تھوڑی سی خاکِ کوچئہ دلبر ہی لے چلیں

یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی

گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں

آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *