بزم میں باعثِ تاخیر ہوا کرتے تھے
ہم کبھی تیرے عناں گیر ہوا کرتے تھے
ہائے اب بھول گیا رنگِ حنا بھی تیرا
خط کبھی خون سے تحریر ہوا کرتے تھے
کوئی تو بھید ہے اس طور کی خاموشی میں
ورنہ ہم حاصلِ تقریر ہوا کرتے تھے
ہجر کا لطف بھی باقی نہیں اے موسمِ عقل!
اُن دنوں نالئہ شب گیر ہوا کرتے تھے
خواب میں تجھ سے ملاقات رہا کرتی تھی
خواب شرمندۃ تعبیر ہوا کرتے تھے